بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا. النِّسَآء(۸۲)
ترجمہ: کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا۔
موضوع:
قرآن مجید میں تدبر کی اہمیت اور اس کے کلامِ الٰہی ہونے کا ثبوت۔
پس منظر:
یہ آیت سورہ نساء میں نازل ہوئی ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے کفار اور منافقین کی گمراہی، ان کے شکوک و شبہات، اور قرآن مجید کی مخالفت کا ذکر کیا ہے۔ یہ آیت لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے تاکہ وہ قرآن کی صداقت اور اس کی الٰہی حیثیت کو سمجھ سکیں۔
تفسیر:
1. غور و فکر کی دعوت: آیت کا آغاز سوالیہ انداز میں ہوتا ہے، جو مخاطبین کو قرآن کے معانی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ تدبر کرنے کا حکم انسان کو غور و فکر کی راہ پر ڈالنے کے لیے ہے۔
2. قرآن کا کلامِ الٰہی ہونا: اگر قرآن کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس میں تضاد اور اختلاف نظر آتا، کیونکہ انسانی علم و بصیرت محدود ہے۔ اللہ کا کلام ہر قسم کے تناقض سے پاک ہے۔
3. مخالفین کی خاموش دلیل: اس آیت میں ان لوگوں کے لیے ایک دلیل ہے جو قرآن کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ قرآن میں کسی بھی قسم کا اختلاف نہ ہونا، اس کے الٰہی ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
4. تدبر کی اہمیت: تدبر کا مطلب صرف الفاظ پڑھنا نہیں، بلکہ معانی، سیاق و سباق اور اس کے پیغام کو گہرائی سے سمجھنا ہے۔
اہم نکات
1. قرآن کا انوکھا انداز: قرآن کی زبان، اسلوب، اور معانی ہر زمانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔
2. اختلاف سے پاک: قرآن ہر قسم کے تضاد اور تناقض سے پاک ہے، جو اس کے خالق کے علم کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔
3. غور و فکر کا پیغام: اللہ نے عقل و فکر کو استعمال کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ قرآن کے پیغام کو سمجھا جا سکے۔
4. قرآن اور علم: علم اور تدبر قرآن کو سمجھنے کی کنجی ہیں، جو انسان کی رہنمائی کے لیے ضروری ہیں۔
نتیجہ:
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس میں غور و فکر کرنے سے انسان کو اللہ کی وحدانیت، حکمت اور عدل کا ادراک ہوتا ہے۔ تدبر کے بغیر قرآن کی حقیقی سمجھ ممکن نہیں، اور یہی پیغام انسان کو ہدایت کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء